An Unbiased View of para 08 full

من وحي الهجرة: درس التضحية (خطبة) الشيخ محمد عبدالتواب سويدان

مُطَرِّف بن عبد اللہ کہتے ہیں: سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: اے مطرف! اللہ کی قسم! میرا یہ خیال تھا کہ اگر میں دو دن مسلسل نبی ٔ کریم ﷺ کی احادیث بیان کروں تو ایک حدیث دوسری دفعہ پڑھنے کی نوبت نہیں آئے گی، لیکن پھر میں نے دیکھا کہ مجھ پر سستی غالب آنے لگی ہے اور میں اس چیز کو ناپسند کرنے لگا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ ٔ کرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہم ‌ میں سے بعض لوگ میری طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس حاضر رہتے اور میری طرح احادیث سنتے تھے، لیکن جب وہ احادیث بیان کرتے ہیں تو وہ اُس طرح نہیں ہوتیں، جیسے وہ بیان کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ خیر میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے، اب مجھے بھی یہ اندیشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر بھی (احادیث کا معاملہ) مشتبہ ہو جائے، جیسے ان پر مشتبہ ہو گیا ہے۔ بسا اوقات سیدنا عمران ؓ یوں کہتے تھے: اگر میں تم کو یہ بیان کروں کہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ احادیث سنی ہیں تو میرا یہی خیال ہو گا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں گا، اور بسا اوقات تو بڑے عزم کے ساتھ کہتے تھے: میں نے اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو ایسے ایسے کہتے سنا ہے۔

 اخبارِ احاد کو مشہورو مستفاض احادیث کے مساوی مقام نہ دینے کے کئی اسباب ہیں، جن میں بنیادی سبب یہ ہے کہ اخبارِ احاد کی اسناد میں وہ قوت نہیں ہے جو مشہورومستفاض احادیث کی اسناد میں پائی جاتی ہے، دوسرا سبب یہ ہے کہ مشہورومستفاض احادیث کے متون عام طور پر  خطا و شذوذ سےمحفوظ ہیں، جبکہ اخبار احاد میں خطا و شذوذ کا تناسب بہت زیادہ ہے۔تیسرا سبب یہ ہے کہ مشہورومستفاض احادیث  کے متون عام طور پر حدیث کے قدیم ترین مجموعوں سے نقل ہوتے آئے ہیں، جیسے مصنف عبدالرزاق اور مسند امام احمد جبکہ  بہت سی اخبار احاد  کا قدیم  کتبِ حدیث میں سراغ نہیں ملتا۔چوتھا سبب یہ ہے کہ اخبارِ احاد میں روایت بالمعنی کا غلبہ ہے، جبکہ مشہورومستفاض احادیث میں عام طور پر روایت باللفظ کا رجحان غالب ہے۔

نوٹ: قرآن میں مذکور دیگر نام یا صفت یا نسبت پہلے نام کے آگے قوسین میں لکھ دی گئی ہے

سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ ، جو کہ بیعت ِ عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، کسی نے ان سے کہا: سیدنا زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کو اپنی رائے کی روشنی میں اس آدمی کے بارے فتوی دیتے ہیں جو مجامعت کرتا ہے، لیکن اس کو انزال نہیں ہوتا۔ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ نے کہا: انہیں جلدی جلدی میرے پاس لے آؤ، پس وہ ان کو لے آئے، سیدنا عمر ؓ نے کہا: او اپنی جان کے دشمن! کیا تو اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ تو نے لوگوں کو مسجد ِ نبوی میں اپنی رائے کی روشنی میں فتویٰ دینا شروع کر دیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے تو ایسی کوئی کاروائی نہیں کی، البتہ میرے چچوں نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے بیان کیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: کون سے تیرے چچے؟ website انھوں نے کہا: سیدنا ابی بن کعب، سیدنا ابو ایوب اور سیدنا رفاعہ بن رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہم ‌۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: یہ نوجوان کیا کہتا ہے؟ میں نے جواباً کہا: جی ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے عہد میں ایسے ہی کرتے تھے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: تو پھر کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے اس بارے میں پوچھا تھا؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے زمانے میں ایسے ہی کرتے تھے اور غسل نہیں کرتے تھے۔ پھر انھوں نے لوگوں کو جمع کر کے یہ بات پوچھی، ہوا یوں کہ سب لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ غسل کا پانی منی کے پانی کے خروج سے ہی استعمال کیا جاتا تھا، ما سوائے دو آدمیوں سیدنا علی علیہ السلام  اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے، یہ دو کہتے تھے: جب ختنے والی جگہ ختنے والی جگہ کو لگ جاتی ہے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ سیدنا علی علیہ السلام نے سیدنا عمرؓ سے کہا: اے امیر المؤمنین!

شمار منزل: قرآن کریم کو سات برابر حصوں میں تقسیم کر لیا گیا ہے تاکہ ہفتے کے سات دنوں میں قرآن کریم کی تلاوت باآسانی ممکن ہو سکے۔ ایک حصہ کو منزل کہتے ہیں۔ پہلی منزل سورہ الفاتحہ سے سورہ النساء تک، دوسری منزل سورہ المائدہ سے سورہ التوبہ تک، تیسری منزل سورہ یونس سے سورہ النحل تک، چوتھی منزل سورہ الاسراء سے سورہ الفرقان تک، پانچویں منزل سورہ الشعراء سے سورہ یٰس تک، چھٹی منزل سورہ الصافات سے سورہ الحجرات تک، ساتویں منزل سورہ ق سے سورہ الناس تک ہے۔

البغوى : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم، والحمد لله رب العالمين.

♦ الآية: ﴿ وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ﴾.

«وَلَوْ» الواو استئنافية. لو حرف شرط غير جازم «نَزَّلْنا عَلَيْكَ كِتاباً» نزلنا فعل ماض متعلق به الجار والمجرور ونا فاعله وكتابا مفعوله «فِي قِرْطاسٍ» متعلقان بمحذوف صفة كتاب. والجملة الفعلية مستأنفة

( ولو أننا نزلنا إليهم الملائكة ) فرأوهم عيانا ، ( وكلمهم الموتى ) بإحيائنا إياهم فشهدوا لك بالنبوة كما سألوا ، ( وحشرنا ) وجمعنا ، ( عليهم كل شيء قبلا ) قرأ أهل المدينة وابن عامر " قبلا " بكسر القاف وفتح الباء ، أي معاينة ، وقرأ الآخرون بضم القاف والباء ، هو جمع قبيل ، وهو الكفيل ، مثل رغيف ورغف ، وقضيب وقضب أي : ضمناء وكفلاء ، وقيل : هو جمع قبيل وهو القبيلة ، أي : فوجا فوجا ، وقيل : هو بمعنى المقابلة والمواجهة ، من قولهم : أتيتك قبلا لا دبرا إذا أتاه من قبل وجهه ، ( ما كانوا ليؤمنوا إلا أن يشاء الله ) ذلك ، ( ولكن أكثرهم يجهلون ) .

This evaluation is used to assistance determine no matter whether There's a have to have for just a paraprofessional for the duration of the development of your child's IEP.

والمعنى: إن هؤلاء الجاحدين لا ينقصهم الدليل على صدقك يا محمد. ولكن الذي ينقصهم هو التفتح للحق، والانقياد للهداية، فإننا لو نزلنا عليك كتابا من السماء في قرطاس- كما اقترحوا- فشاهدوه بأعينهم وهو نازل عليك ولمسوه بأيديهم منذ وصوله إلى الأرض وباشروه بعد ذلك بجميع حواسهم بحيث يرتفع عنهم كل ارتياب، ويزول كل إشكال.

الطبرى : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *